Maktaba Wahhabi

327 - 358
2 یا پھر ’’حَکَمَیْن‘‘ (دو ثالثوں) کے ذریعے سے توکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک ثالث خاوند اور ایک بیوی کی طرف سے ہو گا۔ وہ دونوں میاں بیوی کی باتیں آمنے سامنے یا الگ الگ (جو بھی صورت مناسب اور مفید ہوگی) سنیں گے اور اس کی روشنی میں صلح و مفاہمت کی مخلصانہ کوشش کریں گے، لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر وہ ان دونوں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ فیصلہ بھی طلاق کے قائم مقام ہو گا۔ 3 یا ’’أَمْرُکِ بِیَدِکِ‘‘ کہہ کر خاوند عورت کو علاحدگی کا حق دے دے۔ یہ بھی اختلافات ختم کرنے کی ایک صورت ہے، جو آثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور یہ طلاقِ کنائی کی ایک شکل ہے۔ 4 یا خلع یا پنچایت کے ذریعے سے علاحدگی عمل میں لائی جائے گی۔ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑے گا۔ ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی پانچواں طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوگا اور یہ تفویضِ طلاق پانچواں طریقہ ہے، جو فقہا کا ایجاد کردہ ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل ہے نہ صحابہ و تابعین کا کوئی اثر اس کی تائید میں ہے۔ ایک اور عجیب جسارت یا حیلہ: احناف شریعت کے دیے ہوئے اس حقِ خلع کو نہیں مانتے، جو عورت کو مرد کے حقِ طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے، جب کہ عورت کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس لیے احناف نے اس کا متبادل حل ایک تو تفویضِ طلاق کی صورت میں ایجاد کیا، جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کی، اس کا ایک اور حل فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے، جو عجیب بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں شوخ چشمانہ جسارت بھی۔
Flag Counter