Maktaba Wahhabi

273 - 440
لایا تھا۔ یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ کہہ دے انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) منتظر ہیں۔‘‘ اس سے مراد وہ دن ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اور جو شخص اس وقت ایمان لائے گا یا توبہ کرے گا تو اس کا ایمان اور توبہ قبول نہیں کیے جائیں گے۔ کیونکہ اس وقت ایمان لانا حسی اور مشاہداتی چیز پر ایمان کہلائے گا نہ کہ ایمان بالغیب۔ اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَ لَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ،﴾ (یونس:۳۹) ’’بلکہ انھوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا انھوں نے احاطہ نہیں کیا۔ حالانکہ اس کی اصل حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے جھٹلایا جو ان سے پہلے تھے۔ سو دیکھ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ، الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ،﴾ (البقرہ:۲تا۳) ’’یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، بچنے والوں کے لیے سرا سر ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے اور اس میں سے، جو ہم نے انھیں دیا ہے، خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ متقین کی سب سے پہلی صفت ایمان بالغیب ہے۔ یعنی وہ باتیں جن کا انہوں نے مشاہدہ نہیں کیا لیکن صادق و مصدوق کی خبر پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر اسی طرح ایمان لائے جیسا کہ انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہو۔ کیونکہ وہ اللہ ربّ العالمین اور اس کے
Flag Counter