’’بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک موت کا غرغرہ نہ کرنا شروع کردے۔‘‘[1] یعنی جب تک اس کی روح حلق تک نہ آجائے۔ کیونکہ جب روح حلق تک آجاتی ہے اور انسان ان چیزوں کا مشاہدہ کرلیتا ہے جو اسے بتائی جاتی تھیں تو ایمان و عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ ﴿لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ،﴾ (ق:۲۲) ’’بلا شبہ یقینا تو اس سے بڑی غفلت میں تھا۔ سو ہم نے تجھ سے تیرا پردہ دور کر دیا، تو تیری نگاہ آج بہت تیز ہے ۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں بندے کو بتایا گیا ہے کہ جب اس کی روح قبض کی جائے گی اور وہ ان چیزوں کو دیکھ لے گا جن کے بارے میں اسے زندگی میں بتایا جاتا تھا تو اس وقت ایمان لانا اس کے لیے نفع بخش نہیں ہوگا۔ اسی طرح فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ج یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْکَسَبَتْ فِیْٓ اِیْمَانِہَا خَیْرًا قُلِ انْتَطِرُوْآ اِنَّا مُنْتَظِرُونَ،﴾ (الانعام:۱۵۸) ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں۔ یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |