جاتا ہے۔ اس کی ایک دلیل درج ذیل فرمان خداوندی بھی ہے: ﴿وَلِیَعْلَمِ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِ ادْفَعُوْا قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ ط ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلْاِیْمَانِ ط یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَ،﴾ (آل عمران:۱۶۷) ’’اور تا کہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا: آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا: اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔ اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔‘‘ یعنی ان کے دلوں میں ایمان انتہائی کمزور ہوگیا حتیٰ کہ وہ کفر کے زیادہ قریب ہوگئے۔ ان کے دلوں میں ایمان انتہائی تھوڑا رہ گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ بعض اوقات ایمان اس قدر کمزور ہوجاتا ہے کہ انسان کفر کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ: ((إِنَّ اللّٰہَ جَلَّ وَعَلَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُوْلُ: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہٖ أَدْنٰی مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ الْإِیْمَانِ۔)) ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جس شخص کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہے اسے جہنم سے نکال لو۔‘‘[1] یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان کمزور ہوکر بعض اوقات رائی کے دانے کے برابر رہ جاتا ہے جو کہ انتہائی چھوٹی چیز ہے۔ اس قدر ایمان انسان کو قیامت کے دن |
Book Name | شرح لمعۃ الاعتقاد دائمی عقیدہ |
Writer | امام ابو محمد عبد اللہ بن احمد بن محمد ابن قدامہ |
Publisher | مکتبہ الفرقان |
Publish Year | |
Translator | ابو یحیٰی محمد زکریا زاہد |
Volume | |
Number of Pages | 440 |
Introduction |