Maktaba Wahhabi

260 - 440
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔ اس کے ۶۰ یا ستر سے زیادہ حصے ہیں۔ جب یہ تمام حصے مکمل ہوجائیں تو ایمان کامل ہوجاتا ہے اور جب ان میں سے کوئی کم پڑ جائے تو ایمان میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اسی لیے پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: ’’أَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ۔‘‘ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں درجہ بندی ہے۔ اسی طرح سرور کونین کا فرمان ہے: مَنْ رَأَیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَان۔ ’’تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس کو ختم کرے اگر اس کے پاس اتنی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘[1] یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ایمان سے کمزوری آتی ہے۔ کبھی ایمان کامل ہوتا ہے اور کبھی ناقص اور کمزور۔ جو شخص محض دل سے برائی کو برا جانتا ہے اس کا ایمان انتہائی کمزور ہے۔ اس سے نیچے ایمان کا کوئی درجہ نہیں۔ لہٰذا جو شخص دل سے بھی برائی کو برا نہیں سمجھتا وہ مومن ہی نہیں۔ سو، معلوم ہوا کہ ایمان کبھی مضبوط ہوتا ہے، کبھی کمزور ہوتا ہے اور کبھی مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے: ((وَلَیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْإِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ۔)) ’’اس سے نیچے رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوتا۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان کم ہوتے ہوتے کبھی انتہائی کمزور درجے تک پہنچ
Flag Counter