بطور تنبیہ عرض ہے کہ امین اوکاڑوی صاحب لکھتے ہیں کہ امام احمد مزاجا ًمعتدل تھے مگر فتنہ خلق قرآن کی آزمائش میں آپ اور آپ کے ساتھیوں پر جن قاضیوں نے تشدد کیا وہ عقیدتا معتزلی اور فروعا حنفی تھے۔[1]
امام احمد امام الجرح والتعدیل تھے:
اس پر کتب رجال،بحر الدم فیمن تکلم فیہ الامام أحمد بمدح او ذم لابن عبدالھادی اور موسوعۃ اقوال ا لامام أحمد بہت بڑی دلیل ہیں۔
وفات:
آپ ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ کو جمعہ کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے اس وقت آپ کی عمر ۷۷ سال تھی۔آپ کے جنازے میں خلق کثیر حاضر ہوئی۔
حافط ابن حجر نے جنازہ میں آٹھ لاکھ مردوں اورساٹھ ہزار عورتوں کی شرکت کا تذکرہ کیا ہے۔[2]
امام ابو زرعہ رازی نے کہا کہ خلیفہ متوکل نے حکم دیا کہ امام احمد کی نماز جنازہ پر کھڑے ہونے والے لوگوں کی جگہ کی پیمائش کی جائے، وہ جگہ اندازے میں اتنی تھی کہ اس میں بیس لاکھ افراد سماسکتے تھے۔[3]
اسلمی نے کہا کہ میں امام دارقطنی کے ساتھ ابوالفتح القواس کے جنازے پرتھا، جب انہوں نے بندوں کو دیکھا توکہا میں نے ابوصالح بن زیاد کو کہتے ہوئے سنا انہوں نے عبداللہ بن احمد سے سنا اور انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ اہل بدعت سے کہو کہ تمہارے اور ہمارے درمیان جنازے کے دن ہیں۔[4]
امام احمد بن حنبل کی کتبِ جر ح و تعدیل کا منہج
۱:الأسامی والکنٰی
اس کتاب میں کنی سے مشہور رواۃ کے نام اور بعض ناموں کی کنیتوں کا ذکر ہے۔امام احمد
|