چند مثالیں:
اسماعیل بن ابان کوفی ضعیف الحدیث (رقم:۸۵)
اشعث بن سوار کوفی ضعیف (رقم:۱۰۹)
اشہل بن حاتم بصری ضعیف۔(رقم:۱۱۱)
ہیثم بن عدی طائی کذاب (۱۹۲۴)
معلی بن ہلال کذاب (۱۷۶۴)
لیکچر میں ہم نے مفصل بحث کی ہے وہ بھی سماعت کیا جائے۔
الثقات لا بن حبان(م۳۵۴ھ): اس پر تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
ثقات لابن شاہین (م۳۸۵ھ): اس پر تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
ضعیف رواۃ پر کتب:
(۱)الضعفاء الصغیر للبخاری (م۲۵۶): اس کتاب کے اکثر راوی ضعیف ہیں اور اس میں بعض ثقہ راوی بھی موجود ہیں، مثلا طلق بن حبیب کو خود امام بخاری نے صدوق کہا ہے۔(الضعفاء:۱۷۹)اس سے مقصود اس راوی سے مروی روایت کی کسی کوئی علت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔اس میں بعض صحابہ کو بھی ذکر کیا ہے مثلا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ (الضعفاء:۱۸۲)امام بخاری تنبیہ کی غرض سے ذکر کیا ہے کہ ان سے مروی روایت ان سے صحیح ثابت نہیں ہے۔
(۲)الضعفاء والمتروکون للنسائی (م۳۰۱ھ)
(۳)الضعفاء الکبیر للعقیلی (م۳۲۲ ھ) اس کتاب کی تحقیق شیخ حمدی بن عبدالمجید بن اسماعیل السلفی رحمہ اللہ نے کی تھی جو چار جلدوں میں دارالصمیعی الریاض سے مطبوع ہے۔امام عقیلی رحمہ اللہ نے کتاب کے شروع میں ایک مقدمہ بعنوان ’’ تبین أحوال من نقل عنہ الحدیث ممن لم ینقل علی صحبہ ‘‘میں رواۃ پر جرح وتعدیل کی اہمیت کے متعلق کئی ایک محدثین کے اقول نقل کیے ہے۔
|