سے اخذ کیں۔
الثقات لابن حبان کا منہج:
امام ابن حبان جلیل القدر امام تھے،ان کی خدماتِ حدیث بہت زیادہ ہیں۔ ایک طرف انہوں نے حدیث کی ایک بہت قیمتی کتاب جو ’’صحیح ابن حبان ‘‘ کے نام سے مشہور ہے،لکھی تو دوسری طرف فنِ رجال پر دو معتبر کتب ’’الثقات ‘‘ اور’’ المجروحین ‘‘بھی لکھیں۔بعض متاخرین نے انہیں مطلقا متساہل قرار دیا ہے جو بالکل غلط ہے۔تا ہم امام ابن حبان مجہولین کو ثقہ کہنے میں متساہل ہیں۔اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
؎ل ہے کہ راوی سے روایت لینے والا ثقہ ہو اور کسی نے اس پر جرح نہ کی ہو، اس کی روایت منکر نہ ہو، تو وہ راوی ثقہ ہوتا ہے۔اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ عجیب مذہب ہے جمہور اس کے خلاف ہیں۔یہی ابن حبان کا اسلوب ان کی کتاب الثقات میں ہے،چنانچہ اس میں انہوں نے بہت سے راویوں کا ذکر کیا ہے، جنھیں امام ابوحاتم وغیرہ نے مجہول کہا ہے۔[1]
امام ابن حبان نے الثقات کے مقدمہ میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ جس راوی سے کوئی ثقہ راوی روایت کرنے والا ہو اوراس پر کوئی جرح نہ ہواور اس کی روایت منکر بھی نہ ہو تو وہ راوی ثقہ ہے۔
علامہ ابن عبدالھادی نے اس اصول پر تفصیل سے رد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ امام ابن حبان ایسے رواۃ بھی الثقات میں لے آئے ہیں جن سے خود بھی واقف نہیں۔مثلا سہل یروی عن شداد بن الھاد کے بار ے میں امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ ولست اعرفہ، ولا ادری من ابوہ ؟اس طرح کی کافی مثالیں ابن عبدالھادی نے اپنی کتاب الصارم المنکی (۳۷۴۔۳۷۶)میں بیان کی ہیں۔[2]
|