قیامت کے دن یہ لوگ (جن پر آپ نے جرح کی ہے)آپ کے مد مقابل ہوں گے ؟انہوں نے فرمایا کہ یہ لوگ میرے مد مقابل ہوں،یہ کہیں زیادہ بہتر ہے اس سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن میرے مقابل بحیثیت مدعی ہوں اورآپ فرمائیں کہ جب میرے اوپر جھوٹ گڑھا جا رہا تھا اس وقت تم نے میرا دفاع کیوں نہیں کیا ؟[1]
جرح و تعدیل کی اہمیت:
جرح وتعدیل کا تعلق سند کے ساتھ ہے۔کچھ اقوال سند کی اہمیت پر ملاحظہ فرمائیں۔ صغار تابعین کے دور میں سند بیان نہ کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
عتبہ بن حکیم کہتے ہیں کہ میں ابن ابی فروہ کے پاس تھا اور وہاں ابنِ شہاب زہری بھی موجود تھے،ابن ابی فروہ نے سندبیان کیے بغیر کہا:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !امام زہری نے کہا:اللہ تجھے برباد کرے تو دین کے معاملے میں کتنا جری ہوگیا ہے، اپنی حدیث کی سند ہی بیان نہیں کرتا ؟ہمیں بغیر باگوں اور رسیوں ( سند)کے حدیث بیان کررہا ہے۔[2]
امام عبداللہ بن مبارک نے کہا:الاسناد من الدین لولا الاسناد لقال من شاء ما شاء۔
جرح کرنا غیبت نہیں:
غیبت کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں، لیکن یہ مسئلہ سمجھنے والا ہے کہ آیا رواۃِ حدیث پر محدثین، جو حقیقت میں اللہ کے ولی لوگ تھے کلام کرکے ساری عمر غیبت ہی کرتے رہے ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سے مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ غیبت حرام ہے اس وقت سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔رواۃِ حدیث پر جرح کا تعلق غیبت سے نہیں بلکہ ایک امر مستحسن تھا جس کی محدثین نے بروقت بجا آوری فرما کر دفاعِ حدیث کا بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔اگرکذاب، دجال، زندیق، متروک، فاسق و فاجر اور غافل لوگوں کی نشان دہی نہ ہوتی تو دینِ اسلام بے کار ثابت ہوتا۔سچ اور جھوٹ کی تمیز نہ
|