ہارون الرشید کو ایک زندیق کے بارے میں خبر ملی کہ وہ احادیث خود بناتا ہے تو اس نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اس زندیق نے کہا کہ آپ کو میرے قتل کرنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟خلیفہ فرمانے لگے: لوگ تیرے شر سے محفوظ ہو جائیں گے۔ وہ کہنے لگا:آپ ان ہزاروں روایتوں کا کیا حل کریں گے جو میں نے خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی ہیں۔ان میں ایک لفظ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے۔ خلیفہ فرمانے لگے:تو ابواسحق فزاری اور عبداللہ بن مبارک سے کہاں بھاگ کر جائے گا، وہ تیری روایات کو چھاننی میں ڈال کر ان کا ایک ایک حرف نکال لیں گے۔[1]
اسی طرح عبدالکریم نامی زندیق نے چار ہزار روایات گھڑنے کا اقرار کیا۔[2]
۳۵۰ کذاب رواۃ کی کل روایات پانچ لاکھ سینتالیس بنتی ہیں۔[3]
مثل مشہور ہے کہ چوری چھپی نہیں رہتی اور قاتل بھی آخر پکڑا جاتا ہے۔اللہ کی قسم !یہ دنیاوی معاملات ہیں تو پولیس اور حکومت چوروں کو پکڑ لیتی ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی دین میں غلط روایت بنا کر لوگوں میں عام کردے تو محدثین اس کو نہ پکڑیں۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
صرف لسان المیزان لابن حجر میں ضعیف اور کذاب رواۃ کی تعداد 15538ہے۔
صحیح احادیث کادفاع کرنا جہاد ہے:
امام حمیدی نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر میں ان لوگوں سے جہاد کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث رد کرتے ہیں تو میرے نزدیک یہ ان جیسے (کافر )ترکوں سے جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔[4]
جب بھی کسی نے کسی ثقہ راوی پر غلط اعتراض کیا فورا اس کا رد کیا گیا،یہ ایک مستقل
|