تساہل کی وجوہات:
شیخ البانی رحمہ اللہ تساہل کی وجوہات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے: امام صاحب سے تساھل کا صدور دو وجوہ کی بناء پر ہوا ہے:
ایک:انہیں بعض فتنوں نے (کہ آپ نے نبوت وغیرہا کے متعلق جو کہا تھا) گھیر لیا تھا،جس کی وجہ سے آپکو چہوڑ دیا گیا اور شہر سے نکال دیا گیا تھا، جب معاملہ ایسا ہو تو پھر کوئی بھی عالم ٹھیک طرح کام نہیں کرسکتا، خصوصا علمی وفکری کام اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
دوسرا:آپ نے ’’الثقات‘‘ کے مقدمے میں صراحت کی ھے کہ وہ ( الثقات) انکی کتاب ’’ التاریخ الکبیر‘‘ کا اختصار ھے، میں نے دیکھا کہ ’’ الثقات‘‘ میں دسیوں ایسے روات رہ گئے ھیں جنہیں ’’تاریخ‘‘ میں ذکر کیا جانا ’’ الثقات ‘‘ میں ذکر کیے جانے سے زیادہ اولی ہے۔مثلا وہ روات جنہیں وہ جانتے نہیں، انکے علاوہ اور بھی بہت زیادہ روات ہیں۔ ذیل میں اس کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1) عیسی بن زاذان۔۔۔۔۔۔۔اس سے کوئی بھی مسند ( حدیث) مروی نہیں، بلکہ اس سے رقائق اور عبادات کے متعلق خطابات مروی ہیں۔
(2) عیسی بن جابان۔۔۔۔۔۔۔اس سے نہ اخبار مروی ھیں اور نہ آثار ہی۔بلکہ اس سے عبادت میں رقائق ہی مروی ہیں۔
اس طرح کی اور بھی کئی امثلہ ہیں۔مثال کے طور پر اویس قرنی ہیں، جسے انہوں( ابن حبان) نے زہد اور عبادت گذاری سے متصف کیا ہے، اور اس سے کوئی روایت ذکر نہیں کی، بلکہ امام ذہبی نے تو صراحت کر دی ہے کہ انہوں نے سرے سے کچھ روایت ہی نہیں کیا۔
انہیں کتاب الثقات میں ذکر کرنے سے ’’تاریخ ‘‘میں ذکر کرنا زیادہ قرین قیاس ہے انکا اس(الثقات ) میں باقی رہنا قوی دلیل ھے کہ آپکو کتاب کی مراجعت اور اوھام کا صفایا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے’’الثقات ‘‘ میں اس قسم کی اخطاء واوھام باقی رہ گئے
|