Maktaba Wahhabi

42 - 128
اول قسم پرتو کلام ہی نہیں۔ تیسری قسم۔۔۔یہ بتانے اور متنبہ کرنے کے لیے کہ کس کس قسم کے ظالم لوگ پیدا ہوگئے تھے۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر ایمانداری سے یہ پورا حصہ منتقل کردیا۔۔اور بھی فوائد ہیں۔ دوسری قسم۔۔۔۔تو اسکو اس لیے جمع کردیا تاکہ اگر اسکا کہیں شاہد یا متابع ہوتو اسکے ساتھ یہ قوت پکڑلے گی۔ اور اس حوالے سے ایک بھی محدث سے یہ ثابت نہیں کیاجاسکتا کہ اس نے صحیح شاہد یامتابع کی قید لگائی ہو۔۔اور حقیقت بھی یہی ہے۔۔۔ورنہ اگر لازمی طور پر صحیح متابع یاشاہد کو ہی تلاش کیاجائے تو پھر ضعیف کی ضرورت ہی کیارہیگی جواسکے لیے صحیح متابع تلاش کیاجائے۔۔۔۔؟؟ امام ترمذی رحمہ اللہ ائمہ متقدمین میں سے ہیں: انہوں نے اپنی کتاب میں حسن لغیرہ کوکثرت کے ساتھ ذکرکیا ہے۔۔ اور ان کے دور سے لیکر پانچویں، چھٹی صدی ہجری تک سواء ابن حزم کے کسی ایک بھی محدث سے ان پر نکیر ثابت نہیں۔آخر کیوں۔؟؟ اگر نئی اصطلاح وضع کی جارہی ہے، جس پر ہزاروں احادیث کا فیصلہ ہے۔اگر اس اصطلاح۔ سے ائمہ متقدمین واقف نہ ہوتے تو کیا وہ اسدد پر خاموش تماشائی بیٹھے رہتے۔؟ ابن حزم کا تشدد اور شذوذ معروف ہے۔۔لہذا انکی بات قابل التفات نہیں۔ شیخ زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس پر نکیر ثابت نہیں وہ اجماع ہے۔۔۔لہذا امام ترمذی کی حسن والی اصطلاح پر ائمہ متقدمین سے نکیر ثابت نہیں۔لہذاان کے بقول اجماع ہوا۔ اگر ابن حزم کو لاتے ہیں نکیر ثابت کرنے کے لیے تو پھر ابن مسعودرضی اللہ عنہ بھی قران مجید میں معوذتین کے قائل نہیں۔ملاحظہ ہو ’’توضیح الکلام‘‘۔تو لہذا یہاں پر اجماع قرآن سے پھر انکار کردیں۔۔ اس ساری تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ ائمہ متقدمین اور ائمہ متاخرین کاشوشہ چہوڑنا ترک کردیں۔۔۔ورنہ’’ پھر ائمہ متقدمین کے الگ اصول اور ائمہ متاخرین کے الگ اصول ‘‘کے نام سےکتاب لکھ کر امت پر عظیم احسان کرکے چلے جائیں۔ امت بیچاری پہلے ہی بڑے بڑے
Flag Counter