فتنے سہہ رہی ہے۔ ایک یہ بھی سہی۔ جیسے تیسے سہہ لے گی۔انتہی
سند میں سفیان سے مراد ؟
سندمیں جب سفیان آجائے تو اس سے مراد ثوری ہیں یا ابن عیینہ ؟اس فرق کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:ثوری کے شاگرد کبار اور پرانے ہیں اور ابن عیینہ کے شاگرد صغار ہیں، انہوں نے ثوری کو نہیں پایا اور یہ بات واضح ہے، پس جب قدیم رواۃ نے بیان کیا ہواور نام میں صرف سفیان بولا جائے تو اس سے مراد ثوری ہوں گے اور وہ وکیع، ابن مہدی، فریابی اور ابونعیم کی مثل ہیں۔ان راویوں میں سے اگر کوئی ابن عیینہ سے بیان کرے گا تو ان کا مکمل نام( سفیان بن عیینہ )واضح طور پر لے گا، صرف سفیان نہیں کہے گا اور جس راوی کی ثوری سے ملاقات ہی نہیں ہوئی اور اس نے ابن عیینہ کو پایا ہے تو وہاں تنبیہ کی ضرورت ہی نہیں، اس کے لئے رواۃ کے طبقات کی معرفت ہونا ضروری ہے۔[1]
یہ ایک اہم قاعدہ ہے جو اکثر تلامذہ پر مخفی ہے۔
جرح کرنے والا اگر خود ضعیف ہے تو اس کی جرح قبول نہیں کی جائے گی:
ازدی خود ضعیف ہے، اس نے کسی راوی پر جرح کی تو اس پر تعلیق لکھتے ہوئے حافظ ذہبی فرماتے ہیں:’’ ھذہ مجازفۃ لیت الأزدی عرف ضعف نفسہ۔‘‘یہ ظلم ہے۔کاش ازدی اپنے ضعف کو پہچانتے۔[2]
امام ابن حبان فرماتے ہیں:’’من المحال ان یجرح العدل بکلام المجروح۔‘‘یہ بات محال ہے کہ عادل راوی پر مجروح کے کلام کے ساتھ جرح کی جائے۔اسی طرح کچھ اور ضعیف راوی ہیں جو جرح و تعدیل کے لحاظ سے رواۃ پر حکم لگاتے ہیں، ان کی نہ جرح قبول ہے اور نہ ہی توثیق۔مثلا شاذکونی، ابن خراش،سلمۃ بن القاسم،
|