عوا م الاسدی البصری،عبد اللّٰه بن محمد بن عجلا ن مو لی فا طمۃ بنت عتبۃ القر شی، عبدالرحمن بن زیا د بن انعم افریقی،عبد الو ھا ب بن عطا ء الخفا ف، عمر ان العمی، عا صم بن عبیداللّٰه العمری،معا ویہ الثقفی، ابو عبد الرحمن بصری، مختا ر بن نا فع ابو اسحا ق التیمی،نصر بن حما د بن عجلا ن،یحیی بن ابی سلیمان المدنی،یحیی بن محمد الجا ری،ان کے با رے میں انہو ں نے کو ئی کلام نہیں کیا نہ جر ح کی،مگر ان کو الضعفا ء میں ذکر کیا اور ان پر جر ح کی۔‘‘[1]
اس بحث پرایک مفصل رسا لہ ’’ رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم ائمۃ الجرح والتعدیل بین التو ثیق والتجھیل۔از شیخ عد اب محمو د ‘‘ہے تفصیل کا طا لب اس کتا ب کی طر ف رجو ع کرے۔
امام ابن عدی نے امام بخاری کے سکوت پر کئی مقامات پر تبصرہ کیا ہے۔[2] امام ابن عدی ایک مقام پر کہتے ہیں کہ امام بخاری کی خاموشی سے نہ توثیق مراد ہے اور نہ ضعف۔ان کا مقصد تھا کہ تاریخ میں زیادہ سے زیادہ نام جمع ہو جائیں۔[3]
امام بخاری کی اخطاء و اوہام پر تنقید:
امام ابوزرعہ الرازی نے امام بخاری کی التاریخ الکبیر کے اوہام و اخطا کا تعاقب کیا جیسا کہ ان کے شاگرد امام ابن ابی حاتم نے ’’بیان خطاء البخاری ‘‘ میں ان اوہام واخطاء کا ذکر کیا ہے۔اسی طرح کئی ایک باتیں الجرح و التعدیل میں بھی ملتی ہیں۔لیکن اس میں حق کس کے ساتھ ہے ؟یہ الگ مسئلہ ہے۔
|