Maktaba Wahhabi

55 - 128
ضروری ہوتا ہے) بلکہ بعض جگہ راوی کا نام اور اس کے باپ کا نام بھی مشترک ہوتا ہے، چنانچہ محدثین نے لکھا ہے کہ خلیل بن احمد نام کے چھ شخص گزرے ہیں اور انس بن مالک نام کے پانچ شخص ہوئے ہیں اور کسی کسی راوی کا نام، اُس کے باپ کا نام اور اس کے دادا کا نام بھی مشترک واقع ہوا ہے، چنانچہ احمد بن جعفر بن احمدان چار شخص ہیں اور خود ان کا نام اور ان کے باپ کا نام اور ان کے دادا کا نام ایک ہی ہے اور محمد بن یعقوب بن یوسف دو شخص ہیں اور بعض کنیت اور نسبت ایک سی ہوتی ہیں، چنانچہ ابو عمران جونی دو شخص ہیں، ایک کا نام عبدالملک بن حبیب ہے اور دوسرے کا موسیٰ بن سہل ہے اور اسی طرح ابو بکر بن عیاش بھی تین راوی ہیں۔ غرض محدثین کی اِس قدر چھان بین کو بے کار نہیں سمجھنا چاہیے، اُن کا اِس سے مقصد راویوں میں باہم امتیاز کرنے میں پوری پوری احتیار کرنا ہوتا ہے تا کہ ضعیف راوی، ثقہ راوی سے مشتبہ نہ ہو سکے اور اگر دونوں راوی عدالت اور وثوق کی صفت میں برابر ہوں تو اشتباہ مضر نہیں ہوتا۔ لیکن محدثین کے یہاں اس میں امتیاز کے لیے قرائن اور اشارات ہیں مثلاً سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ میں اُن کے شیوخ اور شاگردوں سے تمیز ہوتی ہے اور اگر اُستاد اور شاگرد بھی ہم نام اور ہم نسبت ہوں تو امتیاز نہایت دشوار ہوتا ہے اور ایسے ہی مواقع پر محدث ہونے کا امتحان ہوتا ہے۔ بصرہ میں فن حدیث کے ایک زمانے میں دوامام موجود تھے جنھیں حمادین کہتے ہیں۔ (1) حماد بن زید بن درہم (2) حماد بن سلمہ لہٰذا صحیحین میں جہاں بھی عارم سے روایت آئے، اس کو حماد سے سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ حماد بن زید ہیں اور اگر … موسیٰ بن اسماعیل تبوذکی راوی ہو گا تو پھر حماد بن سلمہ مراد ہوتا ہے۔ صحیحین میں عبد اللہ بغیر کسی قید کے آئے تو صحابہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ مراد ہوتے ہیں اور آئمہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک۔ ابو جمرہ جیم اور رائے مہملہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں اور ابو حمزہ حائے مہملہ اور زائے منقوطہ سے بھی حضرت عبداللہ بن عباس کا ایک شاگرد (مراد) ہے۔ شعبہ
Flag Counter