﴿فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمْ مَنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ (11) بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ (12) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۲۔ ۱۱] ’’سو اُن سے پوچھ کیا یہ پیدا کرنے کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہیں، یا وہ جنھیں ہم نے پیدا کیا۔ بے شک ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔ بلکہ تو نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘ پہلی آیات میں فرشتوں اور جنات کے بارے میں مشرکین مکہ جس غلط فہمی میں مبتلا تھے اس کا ازالہ کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر آیات میں قیامت کے بارے میں ان کی غلط فکر کی تردید ہے۔ اور بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے روز ان کی آنکھیں کھل جائیں گی جب وہ اور ان کے معبودانِ باطلہ ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور انھیں ان کے معبودوں سمیت جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ﴿ فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا ﴾ الاستفتاء کے معنی ہیں ’’کسی نئے امر کے لیے سوال کرنا۔‘‘ یہ ’’فتی‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں نوجوان۔ سوال کے جواب میں عالمِ دین جو لکھتا یا بتلاتا ہے اسے ’’فتویٰ‘‘ یا ’’فتیا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ’’فتویٰ‘‘ بھی اس لیے ہے کہ وہ جواب مضبوط اور قوی دلیل پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ لوگ جو قیامت کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ مرنے کے بعد جب جسم ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور ہڈیاں گل سڑ جاتی ہیں تو اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان سے پوچھو کہ ان کا یعنی انسانوں کا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا دیگر مخلوقات کا، جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے۔ ان مخلوقات میں آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، دریا، سمندر، پہاڑ، ملائکہ، جنات سب شامل ہیں۔ یہی سوال ایک اور |