نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ ﴾ [المعارج: ۴۱، ۴۰] ’’پس نہیں! میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی! کہ بے شک ہم یقینا قدرت رکھنے والے ہیں۔ اس پر کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم ہرگز عاجز نہیں ہیں۔‘‘ موسم کی تبدیلی کے ساتھ طلوعِ آفتاب کا زاویہ بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ سال کے 365 دنوں میں مشارق و مغارب کی تعداد سینکڑوں ہے۔ نیز زمین پر سورج بیک وقت طلوع نہیں ہوتا، بلکہ مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں طلوع ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے ’’مشارق‘‘ کہا گیا ہے۔ مغارب چونکہ مشارق کے تحت ہیں اس لیے یہاں صرف ’’المشارق‘‘ کا ذکر ہے تاہم ایک جگہ مشارق ومغارب دونوں کا بھی ذکر ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔ اور امام رازی نے فرمایا ہے یہاں ذکر اگرچہ ایک سمت کا ہے مگر مراد دونوں جانب ہیں، جیسے فرمایا: ﴿ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ ﴾ [النحل: ۸۱] ’’اور تمھارے لیے کچھ قمیصیں بنائیں جو تمھیں گرمی سے بچاتی ہیں۔‘‘ حالانکہ قمیص گرمی اور سردی دونوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ مگر ذکر صرف گرمی کا کیا ہے۔ یہ گویا دلیل ہے کہ معبود وہی ہوسکتا ہے جو آسمانوں، زمین اور ان کے مابین ساری مخلوقات کا خالق ومالک ہے۔ جنھوں نے نہ کچھ بنایا نہ اللہ کی بنائی ہوئی کسی چیز میں ان کا کوئی اختیار ہے، وہ مستحق عبادت نہیں۔ |