﴿ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ (158) سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (159) إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (160) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۶۰۔ ۱۵۸] ’’اور اُنھوں نے اس کے درمیان اور جنوں کے درمیان رشتہ داری بنا دی، حالانکہ بلاشبہہ یقینا جن جان چکے ہیں کہ بے شک وہ ضرور حاضر کیے جانے والے ہیں۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ مگر اللہ کے وہ بندے جو چنے ہوئے ہیں۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں مشرکین کے ایک اور برے عقیدے کا بیان ہے کہ وہ جہاں فرشتوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے وہاں یہ ظلم بھی اُنھوں نے ڈھایا ہے کہ کہتے تھے، جن اللہ تعالیٰ کے رشتے دار ہیں۔ ﴿ الْجِنَّةِ نَسَبًا ﴾ ’’اَلْجِنَّۃ‘‘ اَلْجِنُّ کی جمع ہے۔ علامہ راغب نے کہا ہے کہ اس کا استعمال دو طرح سے ہے: 1 انسان کے مقابلے میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہے۔ لہٰذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں۔ اسی بنا پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں۔ 2 بعض نے کہا ہے کہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہے کیوں کہ روحانیات کی تین قسمیں ہیں: 1. اخیار (نیک) : یہ فرشتے ہیں۔ |