حاضر ہوں، تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اسحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے، ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔‘‘[1] غور فرمائیے! یہاں اکلوتا بیٹا اسحاق علیہ السلام قرار دیے گئے ہیں، حافظ ابن کثیر نے بھی فرمایا ہے کہ یہود نے اسحاق علیہ السلام کا نام جھوٹ موٹ لکھ دیا اور یہ ان کی کتاب کی نص کہ اسماعیل اکلوتے بیٹے تھے، کے خلاف ہے۔ انہی کا یہاں وصف حلیم بیان ہوا ہے جب کہ سورۃ الذاریات میں حضرت اسحاق علیہ السلام کا وصف ایک صاحب علم بیٹے کی حیثیت سے ہے: ﴿ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴾ [الذاریات: ۲۸] ’’اور اُنھوں نے اسے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔‘‘ سورت ہود میں تو حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت کے ساتھ پوتے یعقوب علیہ السلام کی بشارت بھی ہے۔ اس لیے اکلوتے بیٹے ’’اسحاق‘‘ کے ذبح کا حکم بے معنی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دونوں بیٹے بڑھاپے میں ملے تھے اور وہ اسی ترتیب سے اللہ کے شکر گزار ہیں: ﴿ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ ﴾ [إبراہیم: ۳۹] ’’سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کیے بے شک میرا رب تو بہت دعا سننے والا ہے۔‘‘ ذبحِ اسماعیل کے تذکرے کے بعد چند آیات آگے بشارتِ اسحاق بھی اسی حقیقت |