Maktaba Wahhabi

276 - 438
جیسے فوت ہونے والے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف چلا گیا۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ آگ میں جانے کا انجام موت ہے تو اُنھوں نے فرمایا میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں۔[1] مگر امام ابن جریر نے فرمایا ہے کہ یہی بات دوسرے مقام پر ﴿ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي ﴾ [العنکبوت: ۷۶] کے الفاظ سے ہے اوراس کا مفہوم ارضِ شام کی طرف ہجرت ہے۔ اس لیے یہاں بھی یہی مراد ہے۔ ﴿ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴾ جب ابراہیم علیہ السلام عراق سے روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ صرف ان کی زوجہ محترمہ سارہ اور ان کے بھانجے حضرت لوط تھے۔ تورات کے بیان کے مطابق جس کی تائید ’’صحیح بخاري‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔[2] جب ابراہیم علیہ السلام مصر پہنچے تو وہاں یہ سانحہ پیش آیا کہ شاہ مصر نے حسبِ دستور سیدہ سارہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چھین لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ تھے کہ بادشاہ ہر حسین عورت کو چھین لیتا ہے، اگر اس کا خاوند ہوتا تو اسے مروا دیتا اور اگر اس کے ہمراہ عورت کا بھائی ہوتا تو عورت چھین لیتا، مگر اس کے بھائی سے درگزر کر لیتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ کے ظلم وستم سے بچنے کے لیے حضرت سارہ سے کہا کہ اگر یہ تیرے بارے میں مجھ سے پوچھے گا تو میں کہہ دوں گا کہ یہ میری بہن ہے تم میری تردید نہ کرنا۔ چنانچہ حسبِ دستور جب بادشاہ نے حضرت سارہ کو ان سے چھین کر خلوت خانہ میں لے گیا اُن پر دست درازی کرنے لگا تو ہاتھ سوکھ گیا۔ اس نے کہا: تم میرے لیے دعا کرو، صحیح ہو جاؤں میں تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ اُنھوں نے دعا کی تو وہ تندرست ہوگیا۔ مگر اس مردود نے دوسری بار پھر دست درازی کرنا چاہی تو وہ دوبارہ پہلی سے زیادہ آفت میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے کہا
Flag Counter