Maktaba Wahhabi

231 - 438
﴿ أَبِيهِ ﴾ کا اپنے ظاہری معنی، یعنی ’’باپ‘‘ پر اطلاق حدیث میں صریح طور پر ہے۔[1] مگر اس تفصیل کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ علامہ سہیلی نے بھی فرمایا ہے: ’’ہذا ھو الصحیح لمجیئہ في الحدیث منسوباً إلی آزر‘‘[2] ’’حدیث میں آزر کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یہی نام صحیح ہے۔‘‘ علامہ خازن نے فرمایا ہے: ’’واللہ سماہ آزر وإن کان عند النسابین والمؤرخین اسمہ تارخ‘‘[3] ’’مورخین اور نسابین کے نزدیک اگرچہ نام تارخ ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کا نام آزر بتلایا ہے۔‘‘ پھر اس مسئلے پر دیگر آراء ذکر کر کے لکھتے ہیں: ’’والصحیح ھو الأول إن آزر اسم لأبي إبراھیم لأن اللہ تعالیٰ سماہ بہ‘‘ ’’پہلی بات ہی صحیح ہے کہ آزر ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام لیا ہے۔‘‘ علامہ رشید رضا مرحوم سے امام بخاری اور علامہ خازن کے کلام میں خلط ہو گیا ہے۔[4] ’’ واللہ سماہ آزر۔۔۔ الخ‘‘ یہ امام بخاری کا نہیں علامہ خازن کا کلام ہے۔ ﴿ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللَّهِ ﴾ ’’افک‘‘ دراصل ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رُخ سے پھیر دی اور ہٹا دی جائے۔ اسی بناپر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں ’’مؤتَفِکَۃٌ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے عزیر علیہ السلام کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
Flag Counter