Maktaba Wahhabi

230 - 438
مگر اکثر مورّخین نے اس کا نام تارخ بتلایا ہے بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی قول منقول ہے غالباً یہ اس لیے کہ تورات میں بھی اس کا نام تارخ ذکر ہوا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا کا نام تھا اور چچا کو باپ کہنا عربی محاورات میں عام ہے جس کے کئی شواہد علامہ زرقانی نے شرح المواہب میں ذکر کیے ہیں۔ بلکہ ابو بکر محمد بن محمد الجوینی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ لوگوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ اس کا نام تارخ تھا۔ مگر علامہ قرطبی اور امام رازی فرماتے ہیں کہ یہ دعوائے اتفاق درست نہیں ابن اسحاق، کلبی اور ضحاک نے اس کا نام آزر ہی ذکر کیا ہے اور اسے تارخ بھی کہا گیا ہے جیسے حضرت یعقوب کو اسرائیل بھی کہا گیا ہے۔ امام بخاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب نامہ ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’إبراھم بن آزر وھو في التوراۃ تارخ‘‘[1] بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ تارخ نام تھا اور اس کا لقب آزر تھا۔ ثعلبی نے کہا ہے کہ آزر اس کا نام تب پڑا جب وہ نمرود کے معبد خانے کا محافظ و نگران بنا تھا۔ امام ابن جریر نے بھی اسی کو صحیح کہا ہے کہ ایک نام ہے اور دوسرا لقب ہے۔ اسی کی حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی تائید کی ہے۔ علامہ رشید رضا نے ’’المنار‘‘ اور امام رازی نے ’’تفسیر الکبیر‘‘ میں تفصیلاً اس پر بحث کی ہے۔ امام رازی نے فرمایا ہے کہ آزر نام کی یہ بڑی دلیل ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت یہود و نصاریٰ نے اس کی تردید نہیں کی، حالاں کہ وہ تکذیبِ قرآن پر بڑے حریص تھے۔ روافض اپنے مخصوص عقیدے کے تحفظ میں یہی کہتے ہیں کہ آزر چچا کا نام تھا باپ کا نہیں۔ بلاشبہہ چچا پر باپ کا اطلاق بھی ہوا ہے، مگر ﴿أَبِيهِ ﴾ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر مجازی معنی میں شمار کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہیے۔
Flag Counter