Maktaba Wahhabi

172 - 438
زقوم کا ذکر قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر ہوا ہے۔[1] سورۃ الواقعہ میں تو صرف یہ بیان ہوا ہے کہ جہنمی زقوم کے درخت سے اپنا پیٹ بھریں گے۔ جبکہ سورۃ الدخان میں اس کی کچھ تفصیل ہے: ﴿ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ (43) طَعَامُ الْأَثِيمِ (44) كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ (45) كَغَلْيِ الْحَمِيمِ ﴾ [الدخان: ۴۶۔ ۴۳] ’’بے شک زقوم کا درخت۔ گناہ گار کا کھانا ہے۔ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں کھولتا ہے۔ گرم پانی کے کھولنے کی طرح۔‘‘ سورۃ الصّٰفّٰت میں اس کی مزید تفصیل ہے۔ جب کفار مکہ کو خبر دار کیا گیا ہے کہ جہنم میں کھانے کے لیے زقوم کا درخت ہوگا تو انھوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ آگ تو درخت کو کھا جاتی ہے بھلا آگ میں درخت کا تصور ہی کیا ہے؟ ان کے اسی تعجب اور مذاق کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے: ﴿ إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ ﴾ ہم نے اس درخت کے ذکر کو ظالموں کے لیے آزمایش بنایا۔ انھوں نے اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے الٹا اس کا مذاق اڑایا کہ کیسی دوزخ، جس میں درخت بھی ہوگا؟ یوں یہ درخت ان کے لیے فتنہ اور ان کے تمرد میں مزید اضافے کا سبب بن گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے کے لیے تو انھیں کوئی بہانہ چاہیے تھا، دوزخ میں زقوم کے درخت سے یہ نیا بہانہ مل گیا کہ سنو! جہنم میں درخت بھی ہوگا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے جہنم کے داروغوں کے بارے میں جب بتلایا گیا کہ وہ اُنیس(۱۹) ہوں گے تو انھوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا اور کلدہ بن اُسید نے کہا قریشیو! دو کو تم سنبھال لینا باقی سترہ کے لیے میں کافی ہوں۔ کلدہ کو اپنی قوت پر بڑا
Flag Counter