Maktaba Wahhabi

207 - 315
جواب:۔ آپ کے سوال کا میں نہایت مختصر جواب پیش کررہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ مختصر جواب آپ کے لیے کافی اور تسلی بخش ہوگا۔ کرنسیوں کی خریدوفروخت میں شرعی اصول یہ ہے کہ یہ لین دین نقد(Cash) ہو جیسا کہ مختلف صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ادھار (Credit)کا معاملہ کرنسیوں کے لین دین میں جائز نہیں ہے۔ کیونکہ کرنسیوں کی قیمتیں مسلسل گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ آج جوکرنسی جس قیمت پر خریدی جارہی ہے کل بھی اس کرنسی کی وہی قیمت ہو۔ رہی یہ بات کہ نقد لین دین کی کون کون سی صورتیں جائز ہوسکتی ہیں تو یہ معاملہ شریعت نے عرف عام پر چھوڑدیا ہے۔ عرف عام میں نقد لین دین کی جو شکل رائج ہوگی وہ شرعاً جائز ہوگی۔ دور حاضر میں کرنسیوں کانقد لین دین بینکوں کے واسطے سے ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے سوال میں واضح کیا ہے اس لیے شرعاً یہ طریقہ جائز ہے۔ البتہ اسلامی بینک خریدی ہوئی کرنسی اس وقت تک فروخت نہیں کرسکتا جب تک اس کرنسی پر اس کا قبضہ نہ ہوجائے۔ یعنی یہ کرنسی اس کی تحویل میں نہ آجائے۔ نفع کی شرح سوال:۔ کیاشریعت نے تجارت میں منافع(Profit) کی کوئی حد مقرر کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کس حد تک منافع لیا جاسکتا ہے؟یاشریعت نے اس معاملے میں تاجر کو پوری آزادی عطا کررکھی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق منافع کی شرح مقرر کرلے؟اُمید ہے کہ آپ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔ جواب:۔ بلاشبہ شریعت کی نظر میں دولت کمانے اور منافع حاصل کرنے کے لیے تجارت ایک بہترین اور معزز پیشہ ہے۔ قرآن کی متعدد آیتوں اور صحیح حدیثوں
Flag Counter