ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کون سی شرعی قباحت محسوس ہوتی ہے جس فتنہ کے خوف سے یہ عورتوں کو سلام کرنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں کلاس روم کے اندر اس قسم کے فتنہ کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ تو باپ بیٹے یا تو باپ بیٹی کا رشتہ ہوتا ہے اور پھر کلاس روم کا ماحول انتہائی سنجیدہ اور پروقار ماحول ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی قسم کے فتنہ کا کیوں کر خوف ہو سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ عورتوں کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان انھیں خاموش رہنا چاہیے تاکہ ان کی آواز مردوں کے کان نہ پڑے تو یہ ایک بے بنیادی بات ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قرآن و حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ عورتیں غیر محرم مردوں سے بات کر سکتی ہیں لیکن ادب و احترام کے ساتھ جیسا کہ پچھلے جواب میں میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں۔ عورتوں اور مردوں کے باہمی اختلاط کے شرعی حدود سوال:۔ مخلوط طرز زندگی (عورتوں اور مردوں کا ایک ساتھ پڑھنا یاکام کرنا زندگی کے دوسرے کام انجام دینا)کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ مردوں عورتوں کے اس قسم کے اختلاط کو علماء حضرات بڑی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے ناجائز قراردیتے ہیں۔ بعض اتنے سخت گیرہیں کہ عورتوں کے گھر سے نکلنے کو بھی ناپسند کرتے ہیں حتیٰ کہ عورتوں کا مسجد جانا بھی ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک قول نقل کرتے ہیں: "لو علم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ما أحدث النساء بعده لمنعهن المساجد" ’’اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو جاتا کہ ان کی موت کے بعد عورتوں نے کیا رویہ اختیار کر لیا تو انھیں مسجد جانے سے منع کر دیتے۔‘‘ |