Maktaba Wahhabi

253 - 315
ناگزیر صورت میں جان لیواادواکا استعمال سوال:۔ اگر کوئی مریض ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہے اور اس کی حالت ناقابل دیدہے تو کیا یہ بات جائز ہے کہ کسی دوا کے ذریعے سے اس کی جان لے لی جائے۔ جان لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ مریض کو ایسی دوا یا انجکشن دیا جائے جو رفتہ رفتہ اس کی جان لے لے اور دوسری یہ کہ اس کا علاج بند کر دیا جائے اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مریض خود ہی دم توڑ دے۔ مثلاً فرض کیجیے کہ کوئی شخص کینسر کا مریض ہے اور وہ اتنی شدید تکلیف میں مبتلا ہے کہ وہ بار بار بے ہوش ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر کو یقین ہے کینسر کا یہ مرض اب اس کی جان لے کر ہی چھوڑے گا تو کیا ایسی صورت میں اسے کوئی ایسی دوادی جا سکتی ہے جو رفتہ رفتہ اس کی جان لے لے؟ یا کوئی بچہ پیدائشی طور پر ناقص الجسم(Abnormal)ہے۔ اس کی ساخت غیر فطری ہے۔ دماغی طور پر وہ مفلوج ہے اور اس کے پھیپھڑے بھی خراب ہیں۔ مصنوعی علاج ( Artificial treatment) کے ذریعے اسے طویل عرصے تک زندہ رکھا جا سکتا ہے لیکن یہ علاج کافی مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ علاج نہ ملنے کی صورت میں یقینی ہے کہ بچہ خود بہ خود مر جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں یہ مصنوعی علاج ضروری ہے یا اس بات کی گنجائش ہے کہ اس کا علاج بند کر دیا جائے؟ جواب:۔ پہلی صورت یا پہلی مثال میں آپ نے جان لینے کی جو ترکیب لکھی ہے وہ یقیناًشرعی اعتبار سے ناجائز ہے۔ خواہ (Slow poison) کے ذریعے جان لی جائے یا الیکٹرک شاک کے ذریعے یا کسی اور دوسرے ذریعے سے بہر حال قتل ہے۔ انسان کی
Flag Counter