Maktaba Wahhabi

263 - 315
باہری حصہ میں لگی ہوتی ہے۔ جسم کے اندرونی حصے میں تو پہلے ہی سے پیشاب پاخانہ اور خون کی صورت میں بےشمارنجاست اور غلاظت بھری ہوتی ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سور کے نجس عضو کو بدن کے اندرونی حصے میں لگانا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہونی چاہیے۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک مرد کے خصیے کو دوسرے مرد میں لگانا کسی صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اس خصیہ میں وہ مادہ ہوتا ہے جس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے ۔ اگر ایک مرد کے خصیے کو دوسرے مرد میں لگادیا جائے تو اس سے نسب کے خلط ملط ہونے کا امکان ہے۔ یہی تو وہ امکان ہے جس کی وجہ سے عورت طلاق یا شوہر کی وفات کے بعد عدت گزارتی ہے۔ اسی طرح کسی شخص کے دماغ کو دوسرے شخص میں لگانا درست نہیں ہے کیونکہ اس طرح بڑے غلط نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ واللّٰه اعلم بالصواب۔ اسقاط حمل سوال:۔ اسقاط حمل (Abortion)کن حالات میں جائز ہے؟ جواب:۔ اسلامی شریعت کی نظر میں جنین (پیٹ کا بچہ) کی زندگی کی وہی اہمیت و حرمت ہے جوکسی زندہ انسان کی ہے۔ اس لیے اس زندگی کی حفاظت بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح زندہ انسان کی زندگی کی حفاظت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حاملہ عورت رمضان کے مہینے میں روزے توڑسکتی ہے اور اگرجنین کو کسی قسم کاخطرہ ہوتو ایسی صورت میں روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔ یہ سب اس لیے تاکہ پیٹ میں نشوونما پانے والے بچے کی زندگی کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ اسلامی شریعت نے کسی شخص کو حتیٰ کہ خود ماں کو اس بات کا حق نہیں دیا ہے کہ جان بوجھ کر جنین کو نقصان پہنچائے ۔ یہی وجہ ہے کہ زنا کی وجہ سے ٹھہرنے والےحمل کا بھی عورت اسقاط نہیں کراسکتی کیونکہ اس بچے کی حیثیت بھی ایک
Flag Counter