Maktaba Wahhabi

82 - 315
ہو۔ ضرورت اسی بات کی ہے کہ اس عظیم منبر سے مسلمانوں کو ان کے دینی، سیاسی اور ملی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور ان مسائل کاحل پیش کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ 1956ء میں جب مصر پر دشمنوں نے حملہ کیا تھا تو وزارت اوقاف کی طرف سے مجھے حکم ملا تھا کہ میں قاہرہ کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دوں اور لوگوں میں دشمنوں کے خلاف جذبوں اور حوصلوں کا اضافہ کروں۔ وقت کا شدید تقاضا تھا کہ میں اس منبر کو سیاسی اورجنگی مسائل پر خطبہ دینے کےلیے استعمال کروں اور میں نےایسا ہی کیا۔ اس کے خاطر خواہ مفید نتائج برآمد ہوئے۔ حالانکہ خودمصری حکومت نے اس سے قبل مجھ پر ہر قسم کی تدریسی وتقریری پابندی لگارکھی تھی۔ مسجدوں میں ایسے خطبے بھی دئیے جاسکتے ہیں جن میں حکومت کی غلط اور غیر مفیدپالیسیوں پر تنقید کی جائے اور اربابِ حکومت کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا جائے بشرطیکہ ان خطبوں میں نام لے کر کسی خاص شخص کو لعن طعن کرنے سے پرہیز کیا جائے اور ان تمام باتوں سے اجتناب کیا جائے، جو شرعی حدود سے تجاوز کرتی ہوں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسجدوں کے خطبے اصلاح معاشرہ اور اقامت شریعت کے لیے ہوتے ہیں اس لیے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کہ برسرِاقتدار پارٹی یا اپوزیشن پارٹی محض اپنی سیاست چمکانے یا سیاسی پروپیگنڈہ کے لیے مسجدوں کو استعمال کریں۔ جمعہ سےمتعلق چند بدعتوں کی توضیح سوال:۔ بلاشبہ جمعہ کا دن تمام دنوں میں افضل ہے۔ جمعہ کی افضلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں نے جمعہ کی عبادتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی بدعتیں بھی شامل کرلی ہیں، جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رواج نہیں تھا۔ مثلاً جمعے کے دونوں خطبوں سے پہلے یا ان کے بعد ایک خطبہ دینا۔ اس خطبے پر اس طرح پابندی ہوتی ہے گویا یہ خطبہ جمعہ کے فرائض کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح جمعے کے دن پابندی کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔ قرآن کی تلاوت ایک نیک عمل ہے، لیکن اس پر اس طرح پابندی کی
Flag Counter