Maktaba Wahhabi

62 - 315
ہے اور اس سے اجتہاد کرتا ہے خواہ یہ رائے کسی بھی مسلک کے مطابق ہوتو اس کا یہ عمل نہ صرف جائز ہے بلکہ لائق ستائش ہے۔ مسلکی وفکری اختلاف کے باوجود تعاون واتحاد سوال:۔ اکثر میں نے آپ کو تقریروں اورخطبوں میں اس قاعدہ کلیہ کا اعادہ کرتے سنا ہے کہ جو امور ہماری امت مسلمہ کے درمیان متفق علیہ ہیں، ان میں ہمیں آپس میں تعاون کرنا چاہیے اور جن امور میں ہمارے درمیان اختلاف ہے ان سے صرف نظر کرنا چاہیے اور انھیں تفرقہ اور پھوٹ کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کس نے یہ قاعدہ کلیہ وضع کیا ہے؟کیاشریعت میں اس کی کوئی دلیل ہے؟ آخر ہم ان لوگوں سے کیسے تعاون کرسکتے ہیں، جواہل بدعت ہیں۔ درآں حالیکہ بہت ساری باتوں میں ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق ہے۔ جولوگ قرآن وسنت کی تعلیمات کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں، ان سے کیونکر صرف نظر کیا جاسکتاہے؟ہمیں تو شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ بدعتوں اور گمراہیوں کی روک تھام کی جائے نہ کہ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی جائے۔ اس سلسلے میں وضاحت مطلوب ہے۔ جواب:۔ مذکورہ قاعدہ کلیہ کو وضع کرنے اور اس کی طرف اُمت مسلمہ کو بلانے والے مصری عالم دین سید رشید رضا رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس قاعدہ کلیہ کامدعا ومقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتوں کو جو فی الحال اپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہیں انھیں اسلام کے دشمنوں کے خلاف متحد ومنظم کیا جائے۔ انھیں متحد ومنظم کرنے کے لیے جس بات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کے مابین لاکھ اختلافات سہی لیکن وہ باتیں ان اختلافی امور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جن پر یہ تمام جماعتیں اتفاق رکھتی ہیں مثلاً ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن وحدیث کی اصولی تعلیمات ان کے علاوہ اور بھی بے شمار باتیں ہیں جن پر تمام امت کا اتفاق ہے ۔ اس
Flag Counter