Maktaba Wahhabi

260 - 315
کسی غیر مسلم کو عضو کا عطیہ دینا جس طرح مال و دولت کا عطیہ کسی غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے اسی طرح عضو کا عطیہ بھی غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے الایہ کہ یہ غیر مسلم کھلم کھلامسلمانوں کا دشمن ہو یا اسلام سے مرتد ہو گیا ہو تو ایسی صورت میں یہ عطیہ جائز نہیں ہے۔ اگر صورت حال ایسی ہو کہ مسلم اور غیر مسلم بیک وقت دونوں ہی کسی عضو کے ضرورت مند ہوں تو ایسی صورت میں مسلم شخص کو ترجیح دی جائے گی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ " (التوبہ:71) ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔‘‘ اسی طرح دین دار مسلم کو غیر دین دار مسلم پر اور رشتہ دار کو غیر رشتہ دار پر ترجیح دی جائے گی۔ اور جس طرح کسی متعین شخص کو عضو کا عطیہ دینا جائز ہے۔ اسی طرح کسی ایسے فرد یا سوسائٹی کو بھی یہ عطیہ دینا جائز ہے جو ان اعضاء کو محفوظ رکھتی ہو اور اور بہ وقت ضرورت مستحق لوگوں کو ان اعضاء کا عطیہ فراہم کرتی ہو۔ عضو کا عطیہ جائز ہے لیکن اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے انسانی اعضاء کا عطیہ تو جائز ہے لیکن اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے تاکہ انسانی جسم سامان تجارت نہ بن جائے کہ اس سے اس کی بے حرمتی لازمی آتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض غریب ملکوں میں انسانی اعضاء کی تجارت زوروں پر ہے۔ غریبوں کو پیسے کالالچ دے کر یا ان کی بے خبری میں ان کے اعضاء نکال لیے جاتے ہیں اور مال داروں کو مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک گھناؤنا جرم ہے۔ عضو کا عطیہ قبول کرنے والا اگر اپنی خوشی سے عطیہ دینے والے کو بہ طور انعام کچھ رقم دے دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ پہلے سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی گئی ہو۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض دینے والے کو
Flag Counter