Maktaba Wahhabi

326 - 315
نفاذِ اسلام کی کوشش سوال: جولوگ دعوت دین کا کام کرتے ہیں اور معاشرہ میں مکمل دین کو نافذ کرنا چاہتےہیں، انھیں اکثر مختلف قسم کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ لوگ دین میں سیاست کو شامل کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے چکر میں ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں فتنہ پھیلارہے ہیں اور لوگوں میں تفرقہ ڈال رہے ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرے کا امن وسکون غارت ہورہاہے۔ ایسا اعتراض کرنے والے اکثر وہ لوگ ہیں جومفکرین اور دانشوران ملت کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو علمائے دین کہلاتے ہیں لیکن دین کو صرف عبادات واذکار تک محدود سمجھتے ہیں۔ کیا معاشرہ میں مکمل دین کی دعوت دینے والےواقعی فتنہ پرور ہیں؟ جواب:۔ اگردعوتِ دین کا کام اور مکمل دین کے نفاذ کی کوشش واقعی فتنہ پروری ہے جیساکہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں تو نعوذباللہ، اللہ کے رسول وانبیاء علیہ السلام سب سے پہلے فتنہ پرور ہیں کیونکہ دعوت دین کی ذمے داری اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خاتمے کی ذمہ داری سب سے پہلے ان ہی رسول اور انبیاء علیہ السلام نے تو نبھائی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دعوت دین کی تحریک کے نتیجہ میں معاشرہ دو گروہوں میں منقسم ہوگیا۔ ایک گرہ مومنین وصالحین کا اور دوسراگروہ کفارومشرکین کا۔ اور ان دونوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں۔ ملاحظہ ہو اللہ کافرمان: "وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ" (النمل:45) ’’اور ہم نے قوم ثمودکی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اے لوگوتم اللہ کی عبادت کرو۔ پس وہ دوگروہ میں بٹ کرجھگڑنے لگے۔‘‘ تو کیانعوذ باللہ صالح علیہ السلام فتنہ پرورتھے کہ دعوت دین کے نتیجہ میں ان کا
Flag Counter