Maktaba Wahhabi

216 - 315
لیتا ہے۔ معاشیات کا علم رکھنے والے اس اُصول کو بخوبی سمجھتےہیں۔ البتہ اگر صورتحال ایسی ہو کہ مارکیٹ میں منافع کی شرح چنداسباب کی بنا پر ضرورت سے زیادہ ہوتو ایسی صورت میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دخل اندوزی کرتے ہوئے قیمت اور منافع کی شرح کو متعین کردے۔ اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں منافع حاصل کرنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے فضل اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ بعض احادیث میں سو فیصد یا اس سے زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے۔ بہت زیادہ نفع لینا صرف بعض حالات میں جائز ہے۔ تمام حالات میں نہیں۔ وہ اشیاء صرف جن کا تعلق غریبوں سے ہوتا ہے اور وہ اشیاء صرف جنھیں ہم لازمی اور ضروری اشیاء قرار دیتےہیں۔ مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ۔ ان میں ضرورت سے بہت زیادہ نفع لینا جائز نہیں ہے ۔ دھوکا، غبن، ذخیرہ اندوزی یا ہراس طریقے سے نفع حاصل کرنا حرام ہے، جس سے خریداروں کو نقصان پہنچے۔ اسی طرح حرام چیزوں کی تجارت س کمایا ہوا نفع بھی حرام ہے۔ گرچہ تاجروں کو حلال نفع کمانے کا پورا حق ہے، لیکن حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر اشیاء صرف کی قیمت اور منافع کی شرح متعین کرنے کے لیے دخل اندازی کرے تاکہ چند لوگ مل کر عوام کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔ ہنسی مذاق سوال:۔ کیاہنسی مذاق کرنا، لطیفے اور چٹکلے سنانا اور ایسی حرکتیں کرناجن سے لوگوں کو ہنسی آئے شرعاً جائز ہے؟بعض دین دار حضرات کا اس بات پر اصرار ہے کہ ہنسی مذاق کرنا دینی نقطہ نظر سے جائز نہیں ہے۔ بقول ان کے ہمارا دین سنجیدہ پر وقار اور بارعب رہنے
Flag Counter