Maktaba Wahhabi

114 - 315
بات سے منع کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں یہ حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے اور اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں( یعنی نیہان ) جوعلم حدیث کے میدان میں غیر معروف شخصیت ہیں۔ اس لیے بخاری اور مسلم شریف کی وہ صحیح حدیثیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے مقابلہ میں ابو داؤد کی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔ عورتوں کو سلام کرنا سوال:۔ ہم کالج میں پڑھنے والی لڑکیاں ہیں۔ ہمارے اساتذہ کا معمول ہے کہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے ہمیں سلام کرتے ہیں اور ہم ان کو سلام کا جواب دیتے ہیں ۔ کیوں کہ ہماری اپنی سمجھ کے مطابق عورتوں کوبھی مردوں کے سلام کا جواب دینا چاہیے۔ لیکن ایک استاد ہماری اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ چنانچہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہوئے انھوں نے کبھی ہمیں سلام نہیں کیا اورنہ ہمارے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے عورتوں کو سلام کرنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ عورتیں سلام کا جواب دیں ۔ کیوں کہ عورتوں کی آواز بھی ستر ہے۔ حالانکہ یہی استاد پڑھاتے وقت ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہمارے سوال کا جواب دیتے ہیں اور ہم سے باتیں بھی کرتے ہیں تو محض سلام کرنے میں انھیں کیا قباحت محسوس ہوتی ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کیا عورت کی آواز ستر ہے اور مردوں کے درمیان اسے خاموش رہنا چاہیے؟ جواب:۔ قرآن کی جن آیات میں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جن احادیث میں سلام کرنے کی تاکید ہے ان پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان میں مرد اور عورت کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے اور ان میں مخاطب مرد اور عورت دونوں ہی ہیں مثلاً قرآن کی آیت ملاحظہ کیجیے ۔ "وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا" (النساء:86) ’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس کا بہتر سلام کے ذریعے جواب دویا پھر ویسے ہی سلام سے جواب دو۔‘‘
Flag Counter