1. محمد بن مروان سدی ’’کذاب‘اور ’’متروک‘‘ہے ،اس پر اجماع ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم رازی، امام یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام نسائی، امام جوزجانی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ وغیرہ نے اس پر سخت جرح کر رکھی ہے۔ 2. اعمش’’مدلس‘‘ ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔ محدثین اعمش کی ابو صالح سے عن والی روایت کو ’’ضعیف‘‘ ہی سمجھتے ہیں ۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲ھ) اعمش کی تدلیس کے بارے میں لکھتے ہیں : عِنْدِي أَنَّ إِسْنَادَ الْحَدِیثِ الَّذِي صَحَّحَہُ ابْنُ الْقَطَّانِ مَعْلُولٌ، لِأَنَّہٗ لَا یَلْزَمُ مِنْ کَوْنِ رِجَالِہٖ ثِقَاتٍ أَنْ یَّکُونَ صَحِیحًا، لِأَنَّ الْـأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَلَمْ یَذْکُرْ سَمَاعَہٗ مِنْ عَطَائٍ، وَعَطَائٌ یَّحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ ہُوَ عَطَائً الْخُرَاسَانِيَّ، فَیَکُونُ فِیہِ تَدْلِیسُ التَّسْوِیَۃِ بِإِسْقَاطِ نَافِعٍ بَیْنَ عَطَائٍ وَّابْنِ عُمَرَ ۔ ’’میرے خیال میں جس حدیث کو ابن قطان نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، وہ معلول (ضعیف)ہے،کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش ’’مدلس‘‘ ہیں اور انہوں نے عطاء سے سماع کا ذکر نہیں کیا،یہ احتمال بھی ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء ،خراسانی ہوں ، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔‘‘ (التّلخیص الحَبیر : 3/19) امام عقیلی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : |