Maktaba Wahhabi

49 - 198
بِمَعْرُوفٍ، وَلَمْ یُدْرِکْ عَلِیًّا ۔ ’’امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مشکل الحدیث‘‘ میں اس روایت پر کلام کیا ہے، اسی طرح کی بات ابو حسین،احمد بن فارس لغوی نے اپنے رسالہ ’’فضائل درود‘‘ میں ذکر کی ہے،لیکن اس رسالے کی سند محل نظر ہے۔ہمارے استاذ حافظ ابو الحجاج مزی رحمہ اللہ نے فرمایا : سلامہ کندی مجہول ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : 6/462، ت : سلامۃ) ٭ حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۹۰۲ھ)نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔ (القول البدیع، ص : 34) تنبیہ: ٭ مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’اور یہ مسئلہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ نماز والا اور درود ابراہیمی صرف نماز میں پڑھ سکتے ہیں ،نماز کے علاوہ پڑھنا گناہ اور ناجائز ہے، اس لیے کہ اس میں سلام نہیں ہے،حالانکہ بحکم قرآنی سلام پڑھنا بھی درود شریف کے ساتھ اسی طرح واجب ہے، جس طرح درود شریف،وہ درود ناقص ہے، جس میں سلام نہ ہو۔درود ابراہیمی نماز میں اس لیے جائز ہے کہ تشہد میں سلام پڑھ لیا گیا وہاں آیتِ صلوٰۃ پر مکمل عمل ہو گیا،وہابی دیوبندی حضرات چونکہ سلام کے منکر اور دشمن ہیں ،اس لیے وہ درود ابراہیمی پڑھنے پر زور دیتے ہیں ۔ان کی دیکھا دیکھی بعض جاہل پیر اپنی حماقت سے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم دیتے ہیں ، مگر قرآن مجید کی آیت پر غور نہیں کرتے، ہر وظیفہ کے لیے سب سے مکمل اور مختصر درود شریف خضری ہے وہ
Flag Counter