سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا ثابت ہے۔ البتہ جو اپنے لیے پسند کرے کہ لوگ میرے لئے کھڑے ہوں ، جو کھڑا نہ ہو اس پر برہمی کا اظہار کرے، اس کے لیے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔‘‘ (شُعَب الإیمان : 11/277) ٭ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (۱۱۷۶ھ) لکھتے ہیں : عِنْدِي أَنَّہٗ لَا اخْتِلَافَ فِیْہَا فِي الْحَقِیقَۃِ، فَإِنَّ الْمعَانِيَ الَّتِي یَدُوْرُ عَلَیْہَا الْـأَمْرُ وَالنَّہْيُ مُخْتَلِفَۃٌ، فَإِنَّ الْعَجَمَ کَانَ مِنْ أَمْرِہِمْ أَنْ تَقُوْمَ الْخَدَمُ بَیْنَ أَیْدِي سَادَتِہِمْ، وَالرَّعِیَّۃُ بَیْنَ أَیْدِي مُلُوْکِہِمْ، وَہُوَ مِنْ إِفْرَاطِہِمْ فِي التَّعْظِیْمِ، حَتّٰی کَادَ یَتَاَخَّمُ الشِّرْکَ، فَنُہُوْا عَنْہُ، وَإِلٰی ہٰذَا وَقَعَتِ الْإِشَارَۃُ فِي قَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَام : ’کَمَا یَقُوْمُ الْـأَعَاجِمُ‘ ۔ ’’میرے مطابق ان احادیث میں کچھ بھی اختلاف نہیں ، جن معانی اور مقاصد پر امر اور نہی کا انحصار ہے، وہ مختلف ہیں ۔ چنانچہ عجمیوں کا یہ دستور تھا کہ خدام اپنے آقاؤں کے سامنے اور رعایابادشاہ کے سامنے کھڑے رہتے تھے۔ایسا کرنا تعظیم میں افراط تھا اور شرک کے ساتھ اس کے تانے بانے مل جاتے تھے۔لہٰذااس قسم کے قیام سے صحابہ کرام کو روک دیا گیا۔اسی بات کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ :عجمیوں کی مانند کھڑے نہ ہو جاؤ۔‘‘ (حُجّۃ اللّٰہ البالغۃ : 2/306) ٭ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ( ۱۳۲۹ھ) لکھتے ہیں : قَدْ أَوْرَدَ الْمُؤَلِّفُ فِي ہٰذَا الْبَابِ حَدِیثَیْنِ دَالَّیْنِ عَلٰی جَوَازِ الْقِیَامِ، ثُمَّ |