صرف فارسیوں اوررومیوں کا وطیرہ تھا۔ نیز اسے کسی آدمی کے لیے کھڑا ہونا نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ تو کسی آدمی کے پاس کھڑے رہنا ہے۔ لہٰذاکسی بندے کے لیے کھڑے ہونا، جس سے منع کیا گیا ہے اور فارس وروم کے فعل سے مشابہ قیام، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ، جب کہ کسی آدمی کی آمد پر قیام عربوں کا طرزِ عمل ہے اور جو احادیث قیام کو جائز ثابت کرتی ہیں ، وہ صرف اسی(دوسرے) قیام کے متعلق ہیں ۔‘‘ (تہذیب السّنن : 8/93) تنبیہات : 1. عمر بن السائب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ آگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر کا بعض حصہ بچھا دیا۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ آئیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی۔وہ اس پربیٹھ گئیں ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔‘‘ (سنن أبي داوٗد : 5145) ’’مرسل ‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 2. سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : أَتَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآہُ (أَيِ الْعَبَّاسَ) قَامَ إِلَیْہِ وَقَبَّلَ مَا بَیْنَ عَیْنَیْہِ، ثُمَّ أَقْعَدَہٗ عَنْ یَّمِینِہٖ ۔ |