آواز لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ کی اور ہمیں کھڑے محسوس کیا، تو اشارے کے ذریعے بیٹھنے کا حکم دیا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی آپ نے ایرانیوں اور رومیوں جیسا طرزِ عمل اپنا رکھا تھا، یعنی وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں ، آپ اپنے امام کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کرو۔ اگر وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے، آپ بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کریں اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو آپ بھی بیٹھ کر نماز ادا کریں ۔‘‘ (صحیح مسلم : 413) حافظ نووی رحمہ اللہ (۶۷۶ھ) فرماتے ہیں : فِیہِ النَّہْيُ عَنْ قِیَام الْغِلْمَانِ وَالتُّبَّاعِ عَلٰی رَأْسِ مَتْبُوعِہِمُ الْجَالِسِ لِغَیْرِ حَاجَۃٍ، وَأَمَّا الْقِیَامُ لِلدَّاخِلِ إِذَا کَانَ مِنْ أَہْلِ الْفَضْلِ وَالْخَیْرِ؛ فَلَیْسَ مِنْ ہٰذَا، بَلْ ہُوَ جَائِزٌ، قَدْ جَائَ تْ بِہٖ أَحَادِیثُ، وَأَطْبَقَ عَلَیْہِ السَّلَفُ وَالْخَلَفُ ۔ ’’حدیث میں مذکورہ ممانعت اس قیام کے متعلق ہے، جو چھوٹے بچے اور خادم بغیر ضرورت کے اپنے آقاؤں کے سر کی جانب کھڑے ہوتے ہیں اور وہ (بادشاہ وغیرہ) بیٹھے ہوتے ہیں ۔ باقی جو قیام اہل فضل و خیر کی آمد پر ہوتا ہے، وہ اس میں شامل نہیں ہے، بل کہ وہ توجائز ہے۔ اس بارے میں احادیث بیان ہوئی ہیں اور سلف و خلف کا اس (کے جواز) پر اتفاق ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 4/135) |