’’اس وعید سے مراد وہ لوگ ہیں ، جو کسی بیٹھے ہوئے کے لیے کھڑے ہوں ۔ کسی آنے والے کے لیے کھڑے ہونا اس سے مراد نہیں ۔ اسی لیے علمائے کرام نے کسی کی طرف کھڑے ہونے اور کسی کے لیے کھڑے ہونے میں فرق کیا ہے۔ کسی باہر سے آنے والے کی طرف کھڑا ہونے والا کھڑے ہونے میں اس کے برابر ہوتا ہے، برعکس اس شخص کے جو بیٹھنے والے کے لئے کھڑا ہو۔‘‘ (مَجموع الفتـاوٰی : 1/375) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : کَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْہِ قَامَ إِلَیْہَا، فَأَخَذَ بِیَدِہَا، فَقَبَّلَہَا، وَأَجْلَسَہَا فِي مَجْلِسِہٖ، وَکَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَیْہَا؛ قَامَتْ إِلَیْہِ، فَأَخَذَتْ بِیَدِہٖ فَقَبَّلَتْہُ، وَأَجْلَسَتْہُ فِي مَجْلِسِہَا ۔ ’’وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف کھڑے ہوتے، ان کے ہاتھ کو پکڑتے، اسے بوسہ دیتے اورانہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے، تو آپ رضی اللہ عنہا آپ کی طرف کھڑی ہوتیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں ، آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔‘‘ (سنن أبي داوٗد : 5217؛ سنن التّرمذي : 3872، وسندہٗ صحیحٌ) اس روایت کو امام ابن حبان(۶۹۵۲)اور امام حاکم(۴/۲۶۴) رحمہما اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ یعنی استقبال کے لیے قیام جائز ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ روایت ان احادیث کے مخالف ومعارض ہے، جن میں کھڑے ہونے |