معاف کر دے۔‘‘ ایسا صرف اسی فعل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے ،جسے کرنا فرض اور چھوڑنا گناہ ہو۔ ثانیاً : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’اگرچہ وہ اعمال کی بناپرجنت میں داخل ہو جائیں ۔‘‘ یہ الفاظ واضح ہیں کہ ذکر ِالٰہی اور درود کا تارک جہنم میں داخلے کا مستحق ہے، یہ اور بات کہ دوسرے اعمال اسے جنت میں لے جائیں ۔ چنانچہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس وعید سے خبردار رہے اور اپنی کسی مجلس میں ذکر الٰہی اور درود سے غافل نہ رہے۔ورنہ یہ مجلس قیامت کے دن نقصان اور حسرت کا باعث ہو گی۔‘‘ (سِلسِلۃ الأحادیث الصّحیحۃ وشيء من فِقْہِہَا وفوائدہا : 1/161) فائدہ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے : إِنَّ قَوْمًا اجْتَمَعُوا فِي مَسْجِدٍ یُّہَلِّلُونَ وَیُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَیَرْفَعُونَ أَصْوَاتَہُمْ، فَذَہَبَ إِلَیْہِمُ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَقَالَ : مَا عَہِدْنَا ہٰذَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ، وَمَا أَرَاکُمْ إِلَّا مُبْتَدِعِینَ، فَمَا زَالَ یَذْکُرُ ذٰلِکَ حَتّٰی أَخْرَجَہُمْ مِّنَ الْمَسْجِدِ ۔ ’’کچھ لوگ ایک مسجد میں جمع ہو کر بآوازِ بلند ’لا الہ الا اللہ‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے لگے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، فرمایا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ایسا عمل نہیں دیکھا۔میں تو آپ کوبدعتی ہی سمجھتا |