Maktaba Wahhabi

72 - 402
ساتھ صفحہ اول پر ان کی وفات کی خبر شائع کی۔روزنامہ ’’امروز‘‘ کثیر الاشاعت اور صحافتی دنیا کا ممتاز اخبار تھا،جس کے ایڈیٹر فیض احمد فیض جیسے نامور شاعر اور صحافی تھے،دیگر ادارتی عملے میں مولانا چراغ حسن حسرت جیسے کہنہ مشق اور معروف کالم نگار کی شہرت رکھتے تھے،چنانچہ ’’امروز‘‘ نے صفحہ اول پر مولانا کی وفات کی خبر یوں شائع کی۔بڑا چوکٹھہ سیاہ رنگ کی صورت میں پہلی سطر اس طرح تھی: ’’علم و فضل کا پیکر،زہد و تقویٰ کا مجسمہ،رشد و ہدایت کا منبع اور جہادِ آزادی کا عظیم سپاہی،مولانا سید محمد داود غزنوی انتقال کر گئے۔إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون‘‘ دوسری ذیلی سرخی اس طرح تھی: ’’جمعیت اہلِ حدیث کے امیر کا جنازہ آج صبح 9 بجے اٹھایا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد سٹاف رپورٹر نے تفصیل یوں لکھی: ’’لاہور،16 دسمبر۔آج علم و فضل کے پیکر،زہد و تقویٰ کے مجسمہ،رشد و ہدایت کے منبع اور جدوجہدِ آزادی کے عظیم سپاہی،خاندانِ غزنویہ کے روشن چراغ اور جمعیت اہلِ حدیث کے امیر مولانا سید داود غزنوی وفات پا گئے۔‘‘ مختلف مکاتبِ فکر کے ممتاز راہنماؤں نے مولانا کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ آج دینی و سیاسی حلقوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ احرار راہنما شیخ حسام الدین نے کہا کہ مولانا مرحوم کی ذات میں دین اور سیاست کا ایمان افروز امتزاج تھا،وہ ایک مجاہد کی طرح زندہ رہے۔ تحفظِ حقوقِ شیعہ جنرل سیکرٹری سید مظفر علی شمسی نے کہا کہ مولانا غزنوی علمائے اسلام کی اس کھیپ سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان کی صورت میں اسلام
Flag Counter