Maktaba Wahhabi

69 - 402
جب مولانا غزنوی آخرت کے راہی بن گئے! آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اکابر کی انتھک محنت اور خدماتِ دینیہ کو اپنی نئی نسل تک پہنچائیں،جنھوں نے کسی ذاتی مفاد و منفعت اور شخصی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کی حقیقت پسندانہ بنیادوں اور تعلیماتِ اسلامیہ پر تشکیل اور اس کی ترقی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیے رکھیں،جو نام و نمود کی پروا کیے بغیر اپنی دُھن میں مگن رہے،ان کا اخلاص و نیک نیتی ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر رہی اور پھر جنھوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک ملک کے عوام کو باوقار زندگی دلانے کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا،اس راہِ کٹھن پر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور غداری جیسے الزامات بھی سہے،مگر اپنے نیک ارادوں اور نصب العین میں لغزش نہیں آنے دی۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تشکیل و تنظیم کو اولین حیثیت دیتے ہوئے اور تقسیمِ ملک کے فوراً بعد پیش آمدہ آباد کاری و معاشی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے احبابِ جماعت سے روابط استوار کر کے مرکزی جمعیت کی بنیاد و اساس رکھی،اس سلسلے میں سرِفہرست علم و فضل کی بلند مرتبت شخصیت حضرت مولانا سید داود غزنوی نظر آتے ہیں۔مولانا مرحوم 1895ء میں امرتسر کے ایک ممتاز اور مشہور مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا حضرت عبداﷲ الغزنوی کا شمار افغانستان کے چند گنے چنے علمائے دین میں ہوتا تھا۔آپ 1814ء میں غزنی کی ایک نواحی بستی بہادر خیل میں
Flag Counter