Maktaba Wahhabi

313 - 402
سیکولر ذہنیت کے مالک حضرات کو قائد اعظم کے وہ خیالات،بلکہ پاکستان کے حصول کے مقاصد کو سامنے رکھنا چاہیے،جو انھوں نے 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان سے بھی دو سال قبل 1938ء میں ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہے،جنھیں روزنامہ ’’انقلاب‘‘ 12 جون 1938ء میں درج ذیل سطور کے ساتھ تحریر میں لایا گیا: ’’مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے،ان کے پاس تو تیرہ سو سال سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ ہے ’’قرآن پاک‘‘ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی،تمدنی،معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔میرا اسی قانونِ الٰہی پر ایمان ہے اور میں جو آزادی کا طالب ہوں،وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی،مساوات اور اخوت۔بحیثیت ایک مسلمان کے میں بھی ان ہی تین چیزوں کے حصول کا متمنی ہوں۔تعلیمِ قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔‘‘ بلاشبہہ یہ الفاظ قائد اعظم کے قرآنِ حکیم پر گہرے تدبر اور سچے ایمان کی غمازی کرتے ہیں۔ قائد اعظم کے انہی نظریات و افکار کے باعث علمائے اہلِ حدیث نے ان کا ساتھ دیا اور تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے جانی و مالی ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ 23 مارچ ہی کے پس منظر کو غالباً پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے آج کے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے قائدین علامہ ساجد میر حفظہ اللہ اور ناظمِ اعلیٰ حافظ
Flag Counter