Maktaba Wahhabi

196 - 402
آ رہے۔یہ سب رفقا فارغ التحصیل ہونے کے بعد آیندہ زندگی میں جماعت کے بڑے بڑے مدارس میں شیوخ الحدیث کی حیثیت سے فائز رہے۔ایسا کیوں نہ ہوتا،جب کہ ان کے اساتذہ میں حضرت حافظ محمد گوندلوی،حضرت مولانا شریف اﷲ خان،حضرت مولانا عبدالغفار حسن اور پروفیسر غلام احمد حریری جیسی نابغہ روزگار علمی شخصیتیں تھیں۔جامعہ سلفیہ کمیٹی کے صدر حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی اور ناظمِ تعلیمات حضرت مولانا محمد عطاء اﷲ حنیف رحمہم اللہ تھے۔صدرِ جامعہ اور ناظمِ تعلیمات ہفتہ عشرہ بعد جب جامعہ میں تشریف لاتے تو طلبا سے خطاب بھی فرماتے۔ان کے اثر انگیز خطاب میں خصوصی طور پر تزکیہ و اصلاح کا تربیتی انداز ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ان علم و عمل کے پختہ اساتذہ کرام اور مولانا غزنوی و مولانا عطاء اﷲ حنیف کے فیضِ صحبت نے مولانا محمد علی جانباز اور ان کے متذکرہ رفقا کو بلند مرتبت اور کندن بنا دیا۔ اس دور میں جامعہ کے مہتمم استاذی المکرم مولانا محمد اسحاق چیمہ تھے،چونکہ مولانا جانباز ان کے انتہائی بااعتماد اور امانت و دیانت کی شہرت رکھتے تھے،اس لیے لائبریری کا چارج اور کئی ایک انتظامی امور مطبخ و غیرہ انہی کے سپرد تھے۔مولانا جانباز ایک خاموش طبع عالمِ دین تھے،جو ساری زندگی نمود و نمایش کے تکلف سے دور رہے۔فہم و فراست،ذہانت و فطانت،تقویٰ و استغنا اور ذکر و عبادات کے لحاظ سے وہ نمونۂ سلف صالحین تھے۔تدریس کے شعبوں میں خدمات کے ساتھ ساتھ وہ بہت سی چھوٹی بڑی علمی کتب کے مصنف بھی تھے۔جن میں سے حدیث کی کتاب ابن ماجہ کی شرح،جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے،ان کی عظیم تالیف اور صدقۂ جاریہ ہے۔ آج کے دور میں مولانا محمد علی جانباز جیسی جامعیت اور سیرت و کردار کی علمی شخصیتیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔علم و فضیلت کی ان صفات کے باوجود ان میں
Flag Counter