Maktaba Wahhabi

195 - 402
تک بھارتی ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے تھے۔ مولانا محمد صدیق اختر چونڈہ کی جامع اہلِ حدیث میں درس و تدریس اور خطابت کی ذمے داریاں تو ادا کرتے ہی تھے،لیکن اُن کا سب سے بڑا کارنامہ سالانہ ختمِ نبوت کانفرنس تسلسل سے منعقد کرانا تھا،جس میں تمام مکاتبِ فکر کے مقامی اور مشہور بیرونی علما خطاب کرتے۔اس زمانے میں دو تین مرتبہ مجھے بھی ان پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا۔اس علاقے میں بہت سے قادیانی خاندان آباد ہیں۔مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں اور کئی قسم کی پوشیدہ سرگرمیوں کو ان کانفرنسوں میں بے نقاب کیا جاتا۔مقررین ختمِ نبوت کے عنوان پر مدلل تقریریں کرتے اور قادیانیت کے دجل و فریب کا پردہ خوب چاک کرتے۔ مولانا محمد صدیق اختر شروع دن سے تا دمِ واپسیں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے وابستہ رہے۔مولانا حافظ محمد شریف مرحوم کے بعد شہر اور ضلع کے قصبات اور دور دراز دیہات تک پورا سال ان کے تنظیمی دورے اور تبلیغی پروگرام جاری رہتے۔توحید و سنت کے وہ گرویدہ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے،ان کی آواز میں دبدبہ اور ایک ایسی للکار ہوتی،جس سے مخالفین کے دل و دماغ دہل جاتے اور ان پر لرزہ طاری ہو جاتا،ان کے وعظ و بیان میں مسلکِ اہلِ حدیث کی صداقت اور حق گوئی و بے باکی نمایاں ہوتی،مگر انھوں نے طبیعت کی سادگی اور وضع داری و قناعت کو زندگی بھر بڑے سلیقے سے نبھایا۔ جب ان سطور کے راقم نے جامعہ سلفیہ میں داخلہ لیا تو مولانا محمد علی جانباز جامعہ کی منتہی کلاس کے طالب علم تھے۔ان کے ہم سبق طلبا میں مولانا حافظ بنیامین،مولانا قدرت اﷲ فوق اور مولانا علی محمد حنیف رحمہم اللہ شامل تھے۔دیگر طلبا کے نام یاد نہیں
Flag Counter