اصطلاحی جسم کے اس اور اس سے بننے کے بارے میں عقلی بحث کی معرفت سے یہ بات مکمل طور پر سمجھ آجاتی ہے۔ کسی اور جگہ پر مکمل تفصیل سے یہ بات بیان کی جاچکی ہے اور یہ واضح کیا چکا ہے کہ اِن اور ان کا قول باطل اور قطعی عقلی دلائل کے خلاف ہے۔ لیکن اس امامی شخص نے یہاں کوئی دلیل ذکر نہیں کی جس سے بحث اختتام تک پہنچتی۔ اس نے اتنی ہی بات کی ہے جو اس مقام کے لائق تھی۔ اس نے جو باطل مقدمات ذکر کیے تھے، جو بھی انہیں ثابت کرے گا، اس کا توڑ اور ابطال انہیں مقدمات سے شروع ہوجائے گا۔ ہر مقام کیلیے مخصوص باتیں ہوتی ہیں ۔
ان امور پر باتیں اپنی جگہ پر تفصیل سے ذکر ہوچکی ہیں اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ منکرین جن صفات کی نفی کرتے ہیں ، وہ کتاب وسنت سے ثابت شدہ ہیں ، مثلا: اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے بلند ہونا وغیرہ، اور جن باتوں کو وہ ذکر کرتے ہیں ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ان جیسی بات کسی رسول نے کی ، نہ صحابہ اور تابعین نے، اور نہ ہی اس پر کوئی عقلی دلیل موجود ہے۔ بلکہ صریح عقلی دلائل صحیح نقلی دلائل کے موافق ہیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنے گھڑے ہوئے متشابہ الفاظ اور عقلی مفاہیم، جن میں سے حق اور باطل کے درمیان یہ تمیز نہ کرسکے، کی بنا پر گمراہ ہوگئے ۔
تمام اہل بدعت؛جیسے خوارج، شیعہ، مرجئہ اور قدریہ کو انبیا کی نصوص میں شبہ پڑ گیا، جبکہ جہمیہ جیسے بدعتیوں کے پاس تو کوئی بھی نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہ اسلام میں پیدائش کے اعتبار سے آخری بدعت ہے۔ جب یہ پیدا ہوئی تو سلف اور ائمہ نے اس کے قائلین کی تکفیر کے لیے آواز اٹھائی کیونکہ وہ ان کی بات سمجھ چکے تھے کہ یہ خالق کو معطل قرار دینا چاہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے محققین معطلہ کے پیشرو فرعون جیسی بات کرنے لگے۔ بلکہ وہ اس کا دفاع کرتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔ اور یہ معطلہ نفی مفصل کرتے ہیں ۔ اور اثبات مجمل اشیا کا کرتے ہیں جس میں دو متضاد باتوں کو جمع کرتے ہیں ۔ جبکہ رسول اثبات مفصل کرتے تھے اور نفی مجمل کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثبات تفصیلی انداز سے کرتے تھے اور تمثیل کی نفی کرتے تھے۔
یہ بات معلوم ہے کہ تورات ان صفات کے اثبات سے بھری ہوئی ہیں جسے نفاۃ تجسیم کہتے ہیں ۔ حالانکہ ان چیزوں کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کبھی بھی یہود پر طعنہ زنی نہیں کی اور نہ انہیں کہا کہ تم مجسِمہ ہو۔ بلکہ یہودی علما جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی صفت بیان کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی بات کرتے تھے جو ان کی تصدیق کرتی تھی۔ مثال کے طور پر وہ حدیث یاد کیجیے جس میں ایک یہودی عالم نے اللہ سبحانہ وتعالیٰٰ کے زمین وآسمان کو تھامنے کی بات کی۔ فرمان الٰہی میں ہے:
﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ....﴾(الزمر67)
’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے....‘‘
|