رہ گئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ :
’’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا یہ سب خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔‘‘[1]
یہ تمام معاریض [توریہ] تھے۔ جن کے اختیار کرنے کے لیے آپ ماموربہ تھے۔ اور آپ کاایسا کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کا کام تھا۔ معاریض کو بسا اوقات جھوٹ کہا جاتا ہے؛ کیونکہ اس سے نفسِ حقیقت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
صحیحین میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایتہے ؛ فرماتی ہیں :
’’میں نے رسول اللہٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نہیں سنا کہ آپ کبھی جھوٹ بولنے کی ذرا بھی اجازت دیتے ہو مگر تین معاملات میں ۔شوہر جو بیوی سے بات کرے [محبت کی تاکہ دونوں میں ازدواجی تعلق برقرار رہے]۔اور جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں بات کہے۔[ اور اس کا سوائے اصلاح کے کوئی ارادہ نہ ہو]۔تیسرا :آدمی جنگ میں کوئی بات خلاف واقعہ کہے۔‘‘[2]
فرمانے لگیں : ’’ان باتوں کو لوگ جھوٹ کہتے ہیں ؛ جب کہ یہ معاریض ہیں ۔‘‘
لیکن اس کے برعکس جو کچھ روافض کہتے ہیں : کہ بیشک انبیائے کرام علیہم السلام سے کوئی خطا یاصغیرہ گناہ واقع نہیں ہو سکتا؛ نہ ہی نبوت سے پہلے اورنہ ہی نبوت کے بعد ۔ ایسے ہی ائمہ سے بھی ۔ پس اس عقیدہ میں امامیہ رافضہ تمام امت سے انفرادیت رکھتے ہیں ۔ جو کہ کتاب و سنت اور اجماع سلف کے مخالف عقیدہ ہے۔ اس سے ان کا مقصود حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی خلافت و امامت پر قدح کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ حضرات کفر سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مؤمن ہی تھے؛نہ ہی ان سے کبھی کوئی غلطی ہوئی اور نہ ہی کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا۔ اوریہی حال باقی تمام بارہ ائمہ کا بھی ہے۔
|