Maktaba Wahhabi

660 - 779
ایذاء دینا حرام ہے۔ اور یہ کہ ان کی اقتداء واجب ہوتی ہے؛ جب کہ گناہ میں کسی کی بھی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو معلوم ہے کہ سزا کا استحقاق اور درجات میں کمی عدم توبہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ جبکہ بلا ریب انبیائے کرام علیہم السلام کے معصوم ہونے کا مطلب ان کا کسی غلطی پر اصرار نہ کرنا ہے۔ مزید برآں یہ مسئلہ بعض کبیرہ گناہوں کا ہے؛ صغیرہ کا نہیں ۔ جمہورمسلمین انبیائے کرام علیہم السلام کو کبیرہ گناہوں خصوصاً فواحش سے منزہ قرار دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کا کوئی کبیرہ گناہ ذکر نہیں کیا؛ چہ جائے کہ کوئی فحاشی ذکر کی جائے۔ بلکہ سورت یوسف میں یہ واضح کیا ہے کہ: اللہ تعالیٰ پاک اپنے مخلصین بندوں کو فحاشی اور برائی سے بچا کر رکھتے ہیں ۔ اور بلاشک ان کی اقتداء ان امور میں ہوتی ہے جن پر وہ برقراررہیں ؛ اور ان سے ان کو منع نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ بلاشک گناہوں کی کئی اقسام ہیں ۔یہ بات تو معلوم ہے کہ ان کے حق میں ہر جنس کا گناہ ناجائز ہے۔ خصوصاً جھوٹ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ جھوٹ مطلق صدق کے منافی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹ بولنے والے کی گواہی رد کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ علماء کے ایک قول کے مطابق کبیرہ گناہ نہ بھی ہے؛ جیسا کہ امام احمد سے بھی ایک روایت ہے۔ اور اگر جھوٹی گواہی دینے والا جھوٹ سے توبہ کرلے ؛ تو کیا اس کی گواہی قبول کی جائے گی یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں ۔ امام مالک رحمہ اللہ سے مشہور یہی ہے کہ اس کی گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ ایسے ہی جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکسی ایک حدیث میں بھی جھوٹ بول دے؛ پھر اس سے وہ توبہ بھی کر لے؛ تو علماء کے ایک قول کے مطابق اس کی روایت قبول نہیں ہوگی۔ یہ امام أحمد اور امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ اس لیے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس نے توبہ کا اظہار صرف اس لیے کیا ہو کہ اس کی روایت قبول کی جائے۔ پس یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ بھلے وہ صغیرہ گناہ کے درجہ میں ہو یا کبیرہ گنا ہ کے درجہ میں ۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’ کسی نبی کے لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس کی آنکھ خیانت کرنے والی ہو۔‘‘ [1]
Flag Counter