نوازا۔اور بہت سی غنائم جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔اللہ تعالی نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کروگے۔ پس یہ تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے، تاکہ وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے ۔اور تمہیں اور (غنیمتیں ) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا اللہ تعالی نے انہیں قابو کر رکھا ہے اور اللہ تعالی ہرچیز پر قادر ہے۔‘‘ [1]
جن لوگوں نے جبل تنعیم کے پاس حدیبیہ کے مقام پر[ ببول کے] درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ؛ ان کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواور آپ کے صحابہ کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ پھر مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی ؛ جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے ۔ یہ ذو القعدہ سن چھ ہجری کا واقعہ ہے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن سات ہجری کی شروع میں غزوہ خیبر کیا ؛ جس میں اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت سے نوازا۔ آپ نے یہ مال غنیمت اپنے صحابہ میں تقسیم کیا ؛ اور حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والے اعرابیوں میں سے کسی کو اس میں سے کچھ بھی حصہ نہیں دیا ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِِذَا انطَلَقْتُمْ اِِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلَامَ اللّٰہِ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا بَلْ کَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِِلَّا قَلِیْلًا ﴾ [الفتح ۱۵]
’’ جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے کلام کو بدل دیں آپ فرما دیجئے!کہ اللہ تعالی ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں )بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (اصل بات یہ ہے ) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر خبر دی ہے کہ اللہ ان صحابہ پر راضی ہوگیا۔ اور ان کے دلوں کاحال جان لیا ؛ اور عنقریب انہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔ یہی وہ بڑے بڑے سرکردہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
|