یہ بات یقینی طور پر ہر کوئی جانتا ہے کہ ان درگاہوں او ردرباروں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بھی ایسا حکم نہیں دیا جیسا کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ کہانیاں گھڑلی ہیں ۔اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس عبادت کرنے کے طریقے مقرر کئے ہیں ۔بلکہ یہ تو مشرکین کا دین ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾
[نوح۲۳]
’’اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو چھوڑنا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : ’’ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے بزرگ تھے۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو لوگ ان کی قبروں پر بیٹھ گئے ۔ جب ایک لمبا زمانہ گزر گیا تو انہوں نے ان کی مورتیاں بنالیں ‘ او رپھر ان کی بندگی کرنے لگے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ تم قبروں پر نہ بیٹھنا اور نہ ہی ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا۔ ‘‘ [1]
حضرت ابوہیاج اسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ کیا میں تجھے اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا تھا کہ تو کسی صورت کو مٹائے بغیر نہ چھوڑنا اور نہ کسی بلند قبر کو برابر کئے بغیرچھوڑنا۔‘‘[2]
یہاں پر مورتیوں کو مٹانے اور قبروں کو برابر کرنے کا ایک ہی حکم بیان ہوا ہے۔اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں شرک پھیلانے کا ذریعہ ہیں ۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے‘ انہوں نے ایک گرجا ارض حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں خوبصورت تصویریں تھیں ۔جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرد مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں یہ تصویریں بنا دیتے، یہ لوگ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین خلق ہوں گے۔‘‘[3]
|